شہر میں ٹریفک کے حادثات میں ایک مہینے میں سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور اس کے بعد ہونے والے مختلف واقعات نے شہر کی فضا میں کافی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ کراچی والوں کے لیے مختلف قسم کے واقعات میں ان کی جانوں کا ضیاع کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس پر افاق احمد کی طرف سے احتجاج کی اپیل، پھر ڈمپر ایسوسی ایشن کی طرف سے جوابی احتجاج، اور آخر میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے جانبدارانہ رویہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شہر کے حالات کو ایک مخصوص جانب لے جایا جا رہا ہے۔ بلکہ واضح الفاظ میں کہا جائے تو شہر میں نسلی بنیاد پر فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لوگ یہ سوال کرنے میں حق
بجانب ہیں کہ اگر وہ اس بربریت پر احتجاج نہ کریں تو اور کیا کریں؟ اس صورتحال پر اردو
کی ایک کہاوت یاد آ گئی: "چور کو نہیں بلکہ اس کی ماں کو پکڑو۔" جس کا مطلب
ہے کہ کسی مسئلے یا برائی کی اصل جڑ کو پکڑنا چاہیے۔ یعنی بعض اوقات جرم کرنے والا
محض ایک مہرہ ہوتا ہے، اصل مجرم کوئی اور ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ معاملے کی تہہ
تک جایا جائے اور اصل ذمہ دار کو تلاش کیا جائے۔
شہر کی موجودہ صورتحال میں
یہ کہاوت بالکل صادق آتی ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹرانسپورٹرز کا ایک گروپ جو بنیادی
طور پر اس شہر سے بھی تعلق نہیں رکھتا وہ نہ صرف اپنی ان (بظاہر) غلطیوں کو، جن کے
نتیجے میں صرف ایک ماہ کے دوران سو سے زائد لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہوا، تسلیم کرنے
اور ان کا ازالہ کرنے کے بجائے، الٹا شہر کے لوگوں کو ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں
دے؟ ان کو کسی نہ کسی طاقت کی پشت پناہی تو ہوگی نا۔ اور جب ہم پیپلز پارٹی کے لگائے
گئے پولیس چیف کی ان ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ہنستی مسکراتی تصویریں اور سندھ اسمبلی میں
ان کا استقبال دیکھیں تو سارا کھیل بآسانی سمجھ میں آ جاتا ہے۔
لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں
ہے بلکہ کئی دہائیوں سے مہاجروں اور ان کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے خلاف ایسے
متعصب اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے عناصر کی دانستہ پشت پناہی کی جاتی رہی ہے۔ گوہر
ایوب سے لے کر ملک غلام سرور اعوان تک اور پھر قادر مگسی سے لے کر ذوالفقار مرزا و
شاہی سید تک ایک لمبی فہرست ہے۔ اور اس کا مقصد مہاجروں کو اس قدر کمزور کرنا ہے کہ
اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر نہ تو آواز اٹھا سکیں اور نہ ہی متحد ہو کر ملک پر مسلط
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی ملک گیر تحریک چلا سکیں۔ اور اگر وہ پھر بھی کھڑے ہو
جائیں تو انہیں اپنی کٹھ پتلیوں سے لڑوا دیا جائے تاکہ ان کی ظلم کے خلاف تحریک کو
بقیہ ملک کے عوام کے سامنے ایک غلط رنگ دیا جا سکے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب
کچھ پاکستان پر مسلط ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ہو سکتا ہے؟ اور یہ کہ اگر آج
اسٹیبلشمنٹ کراچی کے معاملے میں نیوٹرل ہو جاتی ہے تو کیا پیپلز پارٹی سمیت تمام مافیاز
اس شہر کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک جاری رکھ سکتی ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں! اسی طرح اگر
اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تو سہراب گوٹھ، حیدرآباد مارکیٹ، پکا قلعہ، علی گڑھ، لیاری اور
کٹی پہاڑی جیسے مہاجروں کے منظم قتل عام کے واقعات ہو سکتے تھے؟ جب نہیں تو سمجھ لیں
کہ چوروں کی ماں یعنی فساد کی اصل جڑ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے، بقیہ سب اس کی پراکسیز
(کٹھ پتلیاں) ہیں۔
کیونکہ یہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ
تھی کہ اس نے اپنے مختلف ملیٹنٹ ونگز کو لاجسٹکس سپورٹ دے کر مہاجروں کے قتل عام کے
لیے استعمال کیا، ان کے اتحاد کو توڑنے کے لیے ان کے اندر مختلف گروپس بنائے اور پھر
خود بھی براہ راست آپریشن در آپریشن کر کے ہزاروں مہاجر نوجوانوں کا قتل عام کیا۔
لہذا سمجھداری کا تقاضا یہ
ہے کہ مہاجر عوام ان کٹھ پتلیوں سے لڑنے کے بجائے ان کے سرپرست اور اپنے اصل دشمن یعنی
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحد ہو کر ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھرپور تحریک چلائیں
کہ جس میں نہ صرف مہاجروں پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کیا جائے بلکہ اس میں ملوث ملٹری
اسٹیبلشمنٹ اور اس کی نسلی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے بھیس میں موجود پروکسیس (کٹھ
پتلیوں) کو بھی بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کیا جائے۔
جب سکھ کمیونٹی اپنے اوپر
انڈیا میں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ایک منظم مہم چلا کر ان
کی حکومتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکتی ہے تو مہاجر کیوں نہیں؟
اس سلسلے میں سوشل میڈیا
کے تمام پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، ایکس، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب وغیرہ کا استعمال
کیا جا سکتا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا بھر کے تمام بین الاقوامی اداروں اور
حکومتوں کو حقائق سے آگاہی کی مہم چلائی جا سکتی ہے۔
لیکن سلسلے میں سب سے ضروری
چیز آپس میں اتحاد اور نظم و ضبط ہے جس کے بغیر یہ اہم مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی
چاہیے جب ہم متحد تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کی بدولت مہاجروں میں ہونے والے
اتحاد اور ایم کیو ایم کی شکل میں نظم و ضبط کو اپنے وجود کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ
تصور کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس نے اس مثالی اتحاد کو ختم کرنے کے
لیے مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم میں گروپس بنوائے۔
سوال یہ ہے کہ الطاف حسین
کے کسی فیصلے سے "اصولی اختلاف" کے نام پر اپنی ہی قوم کے اتحاد میں دراڑیں
ڈال کر دشمنوں کے ساتھ مل جانا کیا ایک عقلمندی کا فیصلہ تھا؟ افاق احمد اور عامر خان
سے لے کر مصطفی کمال، فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی تک سب نے اسٹیبلشمنٹ کے بہکاوے
میں آ کر اپنے آپ کو الطاف حسین سے زیادہ عقلمند سمجھا اور ایسے ہی غلط فیصلے کیے۔
اور اس کے نتیجے میں ہوا کیا؟ بجائے قوم کو آگے لے کر جانے کے، یہ لوگ الطاف حسین کی
سالوں پر محیط انتھک محنت کی بدولت قائم ہونے والے مہاجر اتحاد اور ان کی سیاسی برتری
کو بھی برقرار نہیں رکھ پائے۔
اسٹیبلشمنٹ نے تو اپنا مقصد
حاصل کر لیا لیکن ان نام نہاد "سمجھدار" لوگوں کو کیا ملا؟ غداری کے تمغے؟
اسٹیبلشمنٹ کا کیا ہے، اس کی "ارڈننس فیکٹری" میں تو اور بہت سے "عقلمند"
موجود ہیں، جو ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا، باری
باری استعمال ہوتے رہیں گے۔ اور جو ناکام ہو جائے گا وہ ایک ٹشو پیپر کی طرح ماضی کا
حصہ بن جائے گا۔
لیکن چند لوگوں کی نادانی
کے اس کھیل میں مہاجر قوم بہت پیچھے چلی گئی۔
لہذا ہمیں اپنا عروج دوبارہ
حاصل کرنے کے لیے نہ صرف ماضی کی طرح ایک بار پھر سے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرنا پڑے
گا بلکہ مہاجر قوم کا مقدمہ بین الاقوامی سطح پر لڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ منظم انداز
میں کام کرنا پڑے گا۔ بظاہر اب یہ ایک واحد راستہ ہے پاکستان کی نسل پرست اسٹیبلشمنٹ
اور اس کے پروکسیز سے چھٹکارا حاصل کرنے کا۔
یاد رکھیے، الطاف حسین کی
اپیل پر ڈونیشن کے طور پر ایک روپے کا یہ سکہ محض پیسے کا نہیں بلکہ درحقیقت اتحاد
و یکجہتی کا سکہ ہے جس کو اب اپنی قوم میں دوبارہ سے رائج کرنا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment