The Brains

Breaking

Friday, April 14, 2023

!Minus Altaf اور "Creeping Coup" مشن

"پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسی کے سربراہ ایک سیاسی جماعت (MQM) سے کراچی کا کنٹرول چھیننے کی مہم کی قیادت کر ر ہے ہیں "۔ اس بات کا انکشاف رائٹرز کی کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔

 

کچھ پاکستانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی میں کسی جماعت کو حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق, "کراچی میں سویلین انتظامیہ کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے، اور یہ فیصلے رینجرز کے سربراہ اور سندھ کے چیف ملٹری کمانڈر لے رہے  ہیں

انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ایجنسی کے سربراہ اختر کے قریبی ایک سرکاری اہلکار نے کہا، "فوج کے ذریعے کراچی پر خاموشی سے  ٹیک اوور کر لیا گیا ہے

(اصل رپورٹ- مہرین زہرہ ملک: http://www.reuters.com/article/2015/04/27/us-pakistan-karachi-insight-idUSKBN0NH0WK20150427 )

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "ایم کیو ایم اور خاص طور پر جلاوطن قائد الطاف حسین کی گرفت کو کمزور کرنے سےدوسری تمام سیاسی جماعتوں ) مثلًاعمران خان کی تحریک انصاف( کے لیے جگہ خالی ہو جائے گی جو کہ فوج سے زیادہ ہمدردی رکھتی ہیں۔

ویسے تو یہ رپورٹ 2015 میں شائع ہوئی لیکن اس مشن پر عمل درآمد اس سے چند سال پہلے ہی سندھ کے شہری علاقوں میں شروع کیا جا چکا تھا۔

پچھلی ایک دہائی سے کتنے ہی ایسے حالات و واقعات  رونما ہوئے ہیں  جن سے الطاف حسین، ان کی جماعت ایم کیو ایم اور مہاجر  کمیونٹی بالواسطہ یا بلاواسطہ نشانہ بنتے رہے ہیں۔ مثلًا (الطاف حسین کے انتہائی وفادار)ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ، 12 مئی  کی خونریزی، کٹی پہاڑی، لیاری، اور بلدیہ فیکٹری میں آگ، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں، گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں اور ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل۔

 

19,000 نیٹو کنٹینرز کے لاپتہ ہونے، پاکستان میں بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کے مقدمات اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل، منی لانڈرنگ، نفرت انگیز تقاریر اور لندن پراپرٹی کیسز بھی ان واقعات میں شامل ہیں۔

لندن کیسز میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے فعال  کردار کی وجہ سے یہ مقدمات  بھی کافی مشکوک بن گئے تھے۔اس سلسلے میں افتخار چودھری کے کراچی ازخود نوٹس اور اس کے فیصلے کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مختصراً یہ کہ اگر ہم ان تمام واقعات کی نوعیت اور ان کے تسلسل پر غور کریں اور نقطوں کو ایک دوسرے سے جوڑیں تو لگتا ہے کہ یہ سب "مشن کریپ" کے  تناظر میں ہی   وقوع پذیر ہوئے تھے۔

 اس سلسلے میں اے این پی کے شاہی سید، پی پی پی کے ذوالفقار مرزا اور پیپلز امن کمیٹی، ٹی ٹی پی، پی ٹی آئی، مصطفیٰ کمال اور کچھ ٹی وی چینلزاوران کے  اینکرپرسنز نےاس گھناؤنے "مشن" میں اپنااپنا کردارادا کیا۔

 

ایم کیو ایم میں تقسیم کے حوالے سے  بھی رائٹرز کی رپورٹ میں الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کے ارکان کو دی گئی دھمکی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایم کیوایم رابطہ کمیٹی  )پاکستان( کے اراکین کو کیوں اپنے قائد سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی اور انہوں نے کیوں اپنے علیحدہ گروپس بنائے۔

رپورٹ کے الفاظ میں, "اگر الطاف حسین استعفیٰ دے دیتے ہیں تو پارٹی باقی رہے گی, لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر پارٹی بھی ان کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔"

 

اس دھمکی سےایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی 22 اگست 2016 کے بعد ا پنے "قائد"  کے بجائے "چیف" یا" لندن"  کے بجائے "پنڈی" سے وفاداری کی تبدیلی کا معمہ بھی حل ہو جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی الطاف حسین کی جماعت کی پی ایس پی, پی آئی بی, بہادرآباد, اوراب "متحدہ" ایم کیوایم میں منقسم ہونے کی وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے ؟ کیااب بھی کسی مزید ثبوت و شواہد کی ضرورت ہے کہ کس طرح کراچی کو ایک شیطانی منصوبے کے ذریعےالطاف حسین کی ایم کیوایم سے چھین  کر پہلے پی ٹی آئی اور پھر پیپلز پارٹی کے حوالے کیا گیا؟

 

No comments:

Post a Comment