The Brains

Breaking

Sunday, August 18, 2024

الطاف حسین - بس کا آخری مسافر

 


آپ نے ایک کہانی تو سن رکھی ہوگی جس کے مطابق ایک بس مسافروں کو لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب سفر کر رہی ہوتی ہے۔ موسم انتہائی خراب ہوتا ہے، تیز بارش ہو رہی ہوتی ہے، بجلی نہ صرف کڑک رہی ہوتی ہے بلکہ کہیں کہیں گر بھی رہی ہوتی ہے۔ بس کا ڈرائیور خراب موسم دیکھ کر بس کو ایک جانب کھڑی کر دیتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ موسم ذرا بہتر ہو تو سفر دوبارہ شروع کرے۔

لیکن صاحب، بجلی تھی کہ نہ صرف کڑک رہی تھی بلکہ دھماکے کے ساتھ گر بھی رہی تھی، وہ بھی بس کے آس پاس، کبھی دائیں تو کبھی بائیں، کبھی آگے تو کبھی پیچھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بجلی اپنے کسی شکار کو تلاش کر رہی ہو۔ اس صورتحال نے بس کے مسافروں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔

یہ تمام صورتحال دیکھ کر بس میں ایک صاحب نے کہا، "مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے کوئی ایسا گنہگار شخص موجود ہے جس سے اللہ سخت ناراض ہے، جس کی بنا پر بجلی بار بار ہمارے قریب گر کر ہمیں کوئی اشارہ دے رہی ہے کہ ہم اسے اپنے سے دور کر دیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اس شخص کے ساتھ ساتھ ہم بھی اس عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔"

"تو ایک شخص کی خاطر ہم سب کی جانیں خطرے میں کیوں ڈالیں؟" مسافروں نے اس بات سے اتفاق کیا، اور پھر یہ طے ہوا کہ ان میں سے ہر شخص اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے باری باری بس سے اتر کر بیچ سڑک پر تھوڑی دیر کے لیے کھڑا ہوگا، اور اگر اس دوران اس پر بجلی نہیں گرتی تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ شخص وہ گنہگار نہیں ہے جس سے اللہ بے حد ناراض ہے۔

اگرچہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، لیکن بادل ناخواستہ سب نے اس کو تسلیم کیا۔ جب پہلے شخص کی باری آئی تو وہ ڈرتے ڈرتے بس سے اتر کر بیچ سڑک پر کھڑا ہوا۔ بجلی چمکتی تو ضرور رہی لیکن گری نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ خوشی خوشی واپس بس میں آ گیا کہ کم از کم وہ تو گنہگار نہیں۔ اس کے بعد دوسرے شخص کی باری آئی، وہ بھی ڈرتے ڈرتے تھوڑی دیر کے لیے کھڑا ہوا اور خوش قسمتی سے بجلی اس پر بھی نہیں گری۔ وہ بھی خوشی خوشی واپس آ کر بس میں بیٹھ گیا۔

اس طرح تمام مسافر بس سے اتر کر سڑک پر جا کر کھڑے ہوئے، لیکن ان میں سے کسی پر بھی بجلی نہیں گری۔ اب آخر میں ایک شخص رہ گیا۔ سارے مسافروں کی نظریں اس آخری شخص پر تھیں۔ سب کی سوچ یہی تھی کہ ہو نہ ہو یہی وہ شخص ہے جس نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا عمل کیا ہے جس نے اللہ کے غضب کو آواز دی ہو، اور شاید بجلی اسی کی تلاش میں بار بار چمک رہی ہے۔

وہ شخص لوگوں کی مشتبہ اور حقارت آمیز نظریں اپنے اوپر پا کر پریشان ہو گیا۔ لوگ اسے غصے سے دیکھ رہے تھے۔ کسی نے کہا، "اچھا تو یہ تم تھے!" تو کسی نے کہا، "جلدی سے اتر جاؤ ہماری بس سے، کہیں تمہاری وجہ سے ہم بھی اس مصیبت کا شکار نہ ہو جائیں۔" اور کسی نے کہا، "جاؤ اور اب بھگتو اپنا مکافات!"

وہ شخص لوگوں کی باتیں سن کر بغیر کچھ کہے بس سے اتر کر سڑک کی طرف چلا گیا، اور جیسے ہی وہ سڑک پر پہنچا، اسی وقت بجلی زور دار دھماکے سے گری، لیکن یہ بجلی اس شخص پر نہیں بلکہ بس پر گری۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کو بھی بس کے اسی آخری مسافر کی طرح سمجھا جاتا رہا، اور ان کو پاکستان کے تمام دیرینہ مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پاکستان میں 77 سالوں سے جاری کرپشن، آئی ایم ایف کی غلامی، ملٹری کو، مشرقی پاکستان کی متحدہ پاکستان سے علیحدگی، بلوچستان میں پاکستان سے بڑھتی ہوئی دوری، پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بے قدری، پاکستان میں سیاسی، مسلکی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر اختلافات، خطرناک حد تک بڑھ جانے والی مہنگائی و بے روزگاری، سب کے ذمہ دار الطاف حسین ہی تھے۔

شاید تبھی ان کو طاقت کے بل پر پاکستان کی سیاست سے باہر کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مل کر الطاف حسین کی قائم کردہ جماعت کے خلاف الیکشن لڑے، لیکن جب بھی سیاسی میدان میں ان کو شکست نہیں دے پائے، تو آپریشن در آپریشن کیے گئے، جن کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھویا۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان آپریشنز کے دوران ہونے والے ظلم و زیادتی کی مذمت کرنے کے بجائے ان کو "مکافات عمل" قرار دے کر نہ صرف کھل کر حمایت کی بلکہ عملاً ساتھ بھی دیا۔

بالآخر اگست 2016 میں ان کو پاکستان کی سیاست کی بس سے زبردستی اتار کر باہر نکال دیا گیا، اور یہ عمل "ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں" قرار دیا گیا۔ لیکن الطاف حسین کو سیاست سے باہر نکالنے کے باوجود بلوچستان اور کے پی کے میں ممکنہ بغاوت، مہنگائی اور بے روزگاری کی بنا عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی، ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی، مسلکی، نسلی اور مذہبی اختلافات، اور ملک کا دیوالیہ ہونے کا خطرہ بجلی کی طرح بار بار چمک کر آنے والے کسی بڑے طوفان کا پتہ دے رہے ہیں۔

اس ساری صورتحال نے بس کے مسافروں میں بے چینی اور افرا تفری پیدا کر دی ہے۔ اب کچھ مسافر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ شاید وہ شخص (الطاف حسین) صحیح تھا اور ہم غلط تھے۔ لیکن ملک کے کرتا دھرتا اب بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور 77 سال بعد بھی انہیں اس بات کا زعم ہے کہ وہ صحیح ہیں اور باقی سب غلط ہیں، اور یہ کہ وہ بہت جلد ملک کو اس منجدھار سے باہر نکال لیں گے۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہو پائے گا؟ اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت تو کر ہی دے گا، لیکن نوجوانوں کے ملک سے باہر جانے کے عمل کی رفتار کچھ اور ہی حقائق بتا رہی ہے۔

خدا اس ملک کے کرتا دھرتاؤں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔

No comments:

Post a Comment